سلسلہ وار آپ بیتی قسط نمبر 69
مناظر عجیب باتیں عجیب:بوڑھے جن نے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد کے پیچھے تہجد کے وقت بیٹھ کر کیا دیکھا وہ مناظر عجیب وہ باتیں عجیب شاید عام عقل انسانی نہ اس کا احساس کرسکے نہ گمان اور
نہ بیان!!!
وہاں جھوٹ‘ دھوکہ‘ فریب ہرگز نہیں ہوتا:وہ عالم کیا ہے ایک انوکھی دنیا‘ انوکھا عالم ہے کیونکہ ہم سب پہلے ارواح تھے‘ مرنے کے بعد پھر روحیں باقی‘ وجود ختم‘ ارواح کی دنیا میں سچائی‘ پاکیزگی‘ نور‘ انوارات‘ راحت ‘رحمت‘ برکت ہوتی ہے۔ وہاں جھوٹ‘ دھوکہ‘ فریب ہرگز نہیں ہوتا۔ ان ارواح کی زندگی میں جو بھی بیان ہوتا ہے اور جو بھی گمان ہوتا ہے سارےعالم میں اور پوری دنیا میں وہی ہوجاتا ہے۔
بوڑھے جن کی کہانی اسی کی زبانی:بوڑھا جن کہنے لگا: میں نے دین کا علم حاصل کیا جس دن ہم بخاری شریف اپنے استاد سے پڑھ رہے تھے‘ ایک حدیث کو بیان کرتے ہوئے ہمارے استاد نے ہمیں واقعہ سنایا جسے اور طالب علم سن کر تو حیران ہوگئے اور استاد کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے لیکن چونکہ میں انسانی روپ میں حدیث پڑھ رہا تھا تو میں دارالعلوم کے اس استاد کو دیکھ کر خوش ہوا اور میرے دل میں استاد کی عظمت اور کبریائی اور بیٹھ گئی۔ استاد کاعجب سچا واقعہ:استاد نے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ اپنے استاد کے ساتھ جنگل میں لنگرخانے کیلئے لکڑیاں چننے گیا تو آگے دیکھا کہ ایک بہت بڑا سانپ جسے میں اژدھا کہوں لیٹا ہوا تھا۔ استاد نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنا شروع کردیا۔۔۔ تھوڑی دیر میں وہ سانپ سکڑنا شروع ہوگیا اور سکڑتے سکڑتے ایک بہت پتلا ایک بالشت سے کچھ بڑا سانپ بن گیا۔ استاد نے اسے اٹھایا اور جیب میں ڈال لیا۔ میں حیران۔۔۔ جرأت نہ ہوئی کہ میں ان سے کچھ پوچھ سکوں ہم لکڑیاں چنتے رہے بس مجھے اتنا محسوس ہورہا تھا کہ استاد کی جیب میں کچھ نقل و حرکت ہورہی تھی لیکن استاد نہایت مطمئن تھے‘خود بھی لکڑیاں اٹھائیں‘ میں نے بھی اٹھائیں۔ جنگل سے سفر کرتے کرتے جب ہم لنگر خانہ پہنچے اور لنگرخانے میں لکڑیاں رکھیں تو استاد نے وضو کیا اور وضو کرنے کے بعد استاد ہمیں حدیث مبارک پڑھانے بیٹھ گئے۔ آدھا دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے بعد استاد جب گئے تو میں ان کے پیچھے ہوگیا قریب ہی ان کا جھونپڑی نماگھر تھا گھر کے دروازے پر لٹکتا بوریا اٹھا کر جب اندر داخل ہونے ہی لگے تو میں نے پاؤں پر ہاتھ رکھ دیا میری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے کیا بات ہے؟ میں نے کہا استاد محترم مجھے پتہ ہے آپ راز جانتے ہیں۔ اس سانپ کا راز مجھے بتادیں۔سورۂ قریش کی مستی میں مست اژدھا:مسکرا کر فرمانے لگے: اگر تو نہ دیکھتا تومیں کبھی نہ بتاتا۔ یہ وہ سانپ ہے جس نے سورۂ قریش اتنی پڑھی ہے‘ اتنی پڑھی ہے کہ اربوں سے زیادہ پڑھی ہے۔ یہ دراصل ایک جن ہے اور ایسا جن ہے کہ جسے عام جن بھی نہ پہچان سکیں اور عام جنات اس کو محسوس نہ کرسکیں۔ یہ سورۂ قریش کی مستی میں مست وہاں اژدھا کی شکل میں مسلسل سورۂ قریش پڑھ رہا تھا بقول اس سانپ جن کے میں نے صدیوں سے کچھ نہیں کھایا جب بھوک لگتی ہے‘ پیاس محسوس ہوتی ہے میں سورۂ قریش پڑھتا ہوں۔سورۂ قریش اور مسائل کا حل:بس سورۂ قریش پڑھتا ہوں میری بھوک ختم ہوجاتی ہے‘ پیاس ختم ہوجاتی ہے اور جب بھوک لگتی ہے پیاس لگتی ہے میں سورۂ قریش پڑھتا ہوں میری بھوک پیاس اسی وقت ختم ہوجاتی ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے کوئی پریشانی ہوتی ہے سورۂ قریش پڑھتا ہوں‘ پریشانی ختم ہوجاتی ہے‘کوئی تکلیف ہو‘ کچھ مسائل ہوتے ہیں میں سورۂ قریش پڑھتا ہوں میرے مسائل‘ میری تکلیف‘ میرے دکھ ختم ہوجاتے ہیں۔ بقول استاد محترم کے آج یہ جنگل میں صدیوں کے بعد اپنے بل سےنکلا ہے۔ اس نے سانپ کی شکل اختیار کرلی یہ جن کسی بل میں رہتاتھا اور وہیں اس کو سورۂ قریش کا چسکا اور مزہ آیا۔۔۔ بس پھر اس نے پڑھنا شروع کردیا اور پڑھتےپڑھتے پڑھتے یہ اس عالم میں اور اس کمال میں پہنچا کہ آنکھوں سے اس نے سورۂ قریش کے کمال دیکھے۔ مجھ پر سورۂ قریش کیسے کھلی: استاد مزید فرمانے لگے کہ بقول اس سانپ جن کے کہ جب پہلے دن میں نےسورۂ قریش پڑھی اس دن مجھے محسوس ہوا کہ رکاوٹ ہورہی ہے اور کچھ قوت اور طاقتیں مجھے سورۂ قریش نہیں پڑھنے دےرہیں لیکن میں نے ہمت کی سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں تک
پہنچا۔ پھر رکاوٹ پڑی اورمیں کئی ماہ تک سورۂ قریش نہ پڑھ سکا اور میرے اندر ایک پریشانی بھی تھی اورایک حیرانی بھی کہ آخر میں سورۂ قریش کیوں نہیں پڑھ پارہا۔ مجھے یقیناً پڑھنا چاہیے بس اسی گمان‘ اسی خیال میں اور اسی افسوس‘ اوراسی پریشانی میں‘ میں کئی مہینے سرگرداں رہا لیکن میری بندش نہ ٹوٹی۔ آخر ایک دن میں اڑ کرخانہ کعبہ پہنچا سات چکر طواف کے کیے پھر میں نے حطیم میں اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگی یااللہ! مجھ پر سورۂ قریش کی تاثیرو طاقت کھول دے اور اس کے راز کھول دے۔ بڑی دیر تک گڑگڑا کر دعا مانگتا رہا‘ روتے روتے اٹھا تومیں نے غیب سے ندا اور آواز سنی ’’جا !تیرے لیے سورۂ قریش کائنات میں وسیع کردی‘‘ بس یہ سننا تھا میں نے اپنے اندر محسوس کیا جیسےکوئی تالا ہے جو میرے اندر سے کھل گیا ہے۔سورۂ قریش کی برکت: بس! میں نے اس کے بعد سورۂ قریش پڑھنا شروع کی اور پڑھتے پڑھتے پڑھتے میں پھر کروڑوں پر پہنچ گیا اور کروڑوں سےاربوں پر پہنچ گیا اب تو میری تعداد اربوں سے بھی زیادہ نکل چکی ہے۔صدیوں میری عمر ہے اور صدیوں میری زندگی کے دن رات ہیں‘ میں ہوں اور سورۂ قریش ہے اب اس کی برکت سے اللہ نے مجھ پر روزی کے دراوزے کھول دئیے‘ بن کھائے کھاتا پیتا ہوں‘ بن سوئے سوتا ہوں‘ بن کام کیے سب کچھ لیتا ہوں اور حاصل کرتا ہوں۔ میں کائنات کو جس نظر سےدیکھتا ہوں سورۂ قریش کی برکت سے میرے لیے وہی ہوجاتا ہے۔اب یہ سانپ میرا ساتھی ہے: بوڑھے عالم جن کہنے لگے کہ میرے استاذ نے مزید فرمایا کہ میں نے وہیں کھڑے کھڑے دروازے پر اپنےاستاذ سے یہ باتیں سنیں۔ استاذ مزید فرمانےلگے میں نے اپنے خاص عمل سے اس جن کو چھوٹےسانپ کی شکل دےدی ہے اور اس کو اپنا ساتھی بنا لیا ہے۔ویسے بھی یہ مجھ سے مانوس ہوگیا ہے صدیوں کی تنہائی کسی ساتھی کی تلاش میں تھی اور صدیوں کی تنہائی سے اکتا کر یہ کچھ راہیں‘ کچھ منزلیں‘ کچھ کمال چاہتا تھا اور صدیوں کی اس تنہائی میں یہ چاہتا تھا کہ اسے کچھ دیا جائے ۔ بس !!!یہ اب میرا ساتھی ہے اور میں اس کا ساتھی ہوں ۔سورۂ قریش کی عظمتیں اور برکتیں: استاذ محترم! ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگے کہ اس سانپ نے مجھ سےوعدہ کیا ہےکہ آپ کے مرنے کے بعد میں آپ کی نسلوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ بوڑھا عالم جن کہنے لگا جس دن میں نے یہ بات سنی اس دن سے میں حیران ہوا اور استاذ نے بخاری شریف کے سبق کے دوران یہ واقعہ مجھے اور سب کو سنایا اور بس استاذ کے اس واقعہ کے عظمت نے مجھے سورۂ قریش کی برکتوں کے قریب کردیا۔ ایک انوکھا عالم:بوڑھا
جن کہنے لگا جس وقت میں حضرت کی خدمت میں تہجد کے وقت پیچھے بیٹھا تھا میں نے ایک انوکھا عالم دیکھا اس میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا سمندر ہے اور وہ اتنا زیادہ بڑا ہے شاید دنیا کے کئی سمندراس سمندرمیں سما جائیں۔اس سمندر کےا ندر ایک چھوٹی سی کشتی ہے‘ سمندر کی لہریں اسے اٹھاتی ہیں پھر نیچے لاتی ہیں اس میں ایک بوڑھا سا بابا بیٹھا ہوا ہے جو کہ دو چپوؤں کے ساتھ کشتی کو چلا رہا ہے اور اس بوڑھے بابا کی زلفیں‘ سفید ڈاڑھی‘ سفید چہرہ‘ نورانی سفید پتلا سا کرتا اور سفید دھوتی اس نے باندھی ہوئی‘ چمڑے کی جوتی پرانی طرز اس نے پہنی ہوئی ہے۔وہ بظاہر محسوس ہورہا ہے کہ بہت مطمئن ہے‘ اسی عالم مراقبہ اور عالم وجد میں میں ان کے پاس پہنچا‘ میں کیسے پہنچا اور سمندر کی میلوں لہروں کا فاصلہ کیسے طے کیا مجھے خبر نہیں۔ بس! ایک احساس تھا کہ میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کےو الد رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھےبیٹھا ان سے توجہات لے رہا ہوں اوران توجہات کی برکت سے مجھ پر تجلیات کھل رہی ہیں۔ جو ہمارا ہے وہ تیرا ہے۔!: میںاس کشتی میں سوار ہوگیا محسوس ایسے ہوتا تھا کہ بابا جی میرے منتظر ہیں ‘بابا جی نے میرے سلام کرنے سےپہلے مجھے سلام کیا اور سلام کرنے کے بعد بیٹھنےکا حکم فرمایا‘ بہت لاجواب میٹھے میوے میرے سامنے رکھے‘ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ایک پیالے میں میرے سامنےرکھا۔ میں نے وہ چیزیں کھائیں۔ پھر خود ہی فرمانے لگے اورحضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ کرکے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا: جی! فرمایا: شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود اتنے بڑے مقام والے ہیں انہوں نےمیرے پاس کیوں بھیجا؟ پھر ہوںںں!!! کرکے فرمانے لگے: اچھا ٹھیک ہے جو ہمارا ہے‘ وہ تیرا ہے‘ بس ایک نصیحت یاد رکھنا ہم سے زیادہ سوالات نہ کرنا‘ بس دیکھتے چلے جانا ‘میں نے اظہار کیا جو آپ کا حکم ہوگا اسے سرتسلیم خم ہے۔نیلے رنگ کی مچھلی کے منہ میں موتی: میں خاموشی سے بیٹھا رہا۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں‘ ایسی ٹھنڈی بھی نہیں کہ میں کپکپا جاؤں ایک سرور تھا‘ سمندر میں سکون تھا ۔تھوڑی سی دیرمیں آگے گئے تو ایک بڑی خوبصورت نیلے رنگ کی مچھلی منہ میں ایک موتی لیےآئی۔ اس بوڑھے ملاح نے فرمایا یہ موتی لے لو! میں نے موتی لینا چاہا تو مجھے اوں ہوںںں! کی آواز آئی اور تھوڑی دیر کے بعد پھراوں ہوںںں!کی آواز آئی۔ میں حیران ہوا یہ آواز تو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہے‘ جن کی پیٹھ کےپیچھے میں بیٹھا تھا اور مجھے ایک احساس ہوا وہ فرماتے ہیں تو نہ لینا! میں نے بڑھائے ہوئے ہاتھ پیچھے کھینچ لیے۔ مچھلی کچھ دیر منہ میں موتی لیے انتظار کرتی رہی اور پھر مچھلی چلی گئی!میں نے بوڑھے ملاح کے چہرے پر دیکھا تو بس مجھے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کا ان کے چہرے پر احساس ہوا۔ یہ باتیںکرتے ہوئے بوڑھا عالم جن کہنے لگا مجھے ایک احساس ہوا کہ سالہا سال حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی میں نے دلی میں خدمت کی‘ خدمت کے صلے میں آج مجھے قیمتی موتی مل رہا تھا نامعلوم وہ قیمتی لعل تھا‘ جواہر تھا یا کوئی انمول جوہر!!! لیکن حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے روک دیا پھر احساس ہوا کہ درویش کی کسی بات میں کوئی نہ کوئی راز ہوتا ہے‘ تم رازوں کو نہ سمجھے یہ تیری اپنی کوتاہی ہے‘ بس رازوں کو سمجھ جا!کچھوا نما مخلوق کے منہ میں چابی: میں انہی سوچوں میں تھا کہ میرے بائیں طرف ایک خوبصورت سا کچھوا۔بظاہر تو وہ کچھواتھا لیکن کچھوا نہیں تھا کوئی خوبصورت سی سمندری مخلوق تھی۔ وہ منہ میں ایک چابی لیے میری طرف آئی‘ کشتی کے جس کنارے میں بیٹھا تھا وہ اس طرف منہ نکال کر بظاہر یہ محسوس ہورہا تھا کہ کہہ رہا ہو یہ چابی لے لو! میں نے وہ چابی لینا چاہی تو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پھر وہی آواز اوں ہوںںں! آئی۔ میں سمجھ گیا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مجھے چابی لینے سے روک رہے ہیں‘ میں نے چابی نہ لی کچھ دیر تک وہ کچھوا نما سمندری مخلوق منہ میں چابی لیے ٹھہری رہی اس کے بعد وہ چلی گئی۔ میں نے بابا جی کےچہرے پر گہری نظر ڈالی تو ہلکی سی مسکراہٹ لیکن خاموشی‘ میں سوچنے لگا نامعلوم کسی خزانےکی چابی ہے‘ کائنات کے رازوں کی چابی تھی‘ دولت کی چابی تھی‘ علم کی چابی تھی‘ کشف کی چابی تھی۔ بس میرے دل میں یہ سوچیں آتی رہیں لیکن پھر خیال آیا میں نے اپنے آپ کو جس ہستی کے سپرد کیا ہے وہ ہستی آخر ایسی ہستی ہے تو جس نے مجھے اس چابی سے روکا۔دودھ سے سفید اور شہد سے میٹھا سمندر:ہمارا کشتی کا سفر رواں دواں تھا۔ بوڑھا ملاح ہا تھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھ رہاتھا اور ساتھ چپوؤں کوہلکے ہلکے ہلا رہا تھا لیکن کشتی بہت تیزی سے سفر کررہی تھی ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے چپوؤں کو صرف ویسے ہی ہلایا جارہا ہے‘ورنہ کشتی کو تو کوئی اور طاقت لیے جارہی ہے۔ تاحد نظر سمندر ہی سمندر لیکن حیرت کی بات سمندر نہایت شفاف سفید بلکہ دودھ کی طرح دودھیا تھا۔ میں نے کئی بار سمندر میںکشتی سے باہر ہاتھ ڈالا‘ پانی پیا تومیری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ سمندر کا پانی کڑوا اور نمکین نہیں تھا بلکہ نہایت میٹھا جیسے دودھ اور شہد۔ میں حیران ہوا بابا جی مجھ سے کوئی بات نہیںکررہے تھے ۔بوڑھے جن نے ہمیں رُلادیا:یہ بات کرتے ہوئے بوڑھے عالم جن کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور وہ کہنے لگے کہ شاید میری باتیں آپ کو عجیب لگیں۔ ان کے آنسوؤں کو دیکھ کر ہم سب اہل محفل جن میں صحابی بابا‘حاجی صاحب اور دیگر حضرات بیٹھے تھے رو پڑے پتہ نہیں ان کے آنسوؤں میں کیا درد تھا غم تھا یا چبھن تھی۔ بوڑھا عالم جن کہنے لگا سفر ہوتے ہوتے ایک اور چیز میں نے دیکھی اچانک دیکھا کہ دور سے ایک ابر آرہا سیاہ رنگ کا بادل اٹھا اور اس ابر نے ہماری کشتی کو گھیرلیا۔ اور تھوڑی ہی دیر میں اس ابر سے پھول کی پتیوں کی طرح کچھ گرنے لگا اور وہ پھول کی پتیاں بظاہر پتلی پتلی لیکن جب میں نے ان کو ہاتھ لگایا تو وہ سونے کی تھیں۔میں نے ان کو سمیٹنا چاہا تو شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مجھے آواز آئی اوہ ہوں اور میں ایک پل میں رک گیا سوچا سونے کی بارش ہورہی ہے‘ کشتی بھرگئی ہے اور یہ مجھے سونا نہیں لینے دیتے۔ یہ تو اتنا سونا ہے کہ میری نسلیں مالدار اور مالا مال ہوجائیں‘ آخر میں نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا بارش ہوتی رہی اور اتنی پتیاں کہ ہمارا صرف چہرہ اور گردن تک اس کے علاوہ ساری کشتی بھرگئی(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں